تفسير ابن كثير



سورۃ الأنبياء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ[68] قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ[69] وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ[70]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] انھوں نے کہا اسے جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو، اگر تم کرنے والے ہو۔ [68] ہم نے کہا اے آگ! تو ابراہیم پر سراسر ٹھنڈک اور سلامتی بن جا۔ [69] اور انھوں نے اس کے ساتھ ایک چال کا ارادہ کیا توہم نے انھی کو انتہائی خسارے والے کر دیا۔ [70]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے [68] ہم نے فرما دیا اے آگ! تو ٹھنڈی پڑ جا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے سلامتی (اور آرام کی چیز) بن جا! [69] گو انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کا برا چاہا، لیکن ہم نے انہیں ناکام بنا دیا [70]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (تب وہ) کہنے لگے کہ اگر تمہیں (اس سے اپنے معبود کا انتقام لینا اور) کچھ کرنا ہے تو اس کو جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو [68] ہم نے حکم دیا اے آگ سرد ہوجا اور ابراہیم پر (موجب) سلامتی (بن جا) [69] اور ان لوگوں نے برا تو ان کا چاہا تھا مگر ہم نے ان ہی کو نقصان میں ڈال دیا [70]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 68، 69، 70،

آگ گلستان بن گئی ٭٭

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد نے سب سے اچھا کلمہ جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام آگ سے زندہ صحیح سالم نکلے، اس وقت آپ علیہ السلام کو اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے دیکھ کر آپ علیہ السلام کے والد نے کہا، ابراہیم (‏‏‏‏علیہ السلام) تیرا رب بہت ہی بزرگ اور بڑا ہے۔‏‏‏‏ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں، اس دن جو جانور نکلا وہ آپ علیہ السلام کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا رہا سوائے گرگٹ کے۔‏‏‏‏ [تفسیر ابن جریر الطبری:467/18:] ‏‏‏‏
5461

زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے اور اسے فاسق کہا ہے۔‏‏‏‏

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک نیزہ دیکھ کر ایک عورت نے سوال کیا کہ یہ کیوں رکھ چھوڑا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا گرگٹوں کو مار ڈالنے کے لیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس وقت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے اس وقت تمام جانور اس آگ کو بجھا رہے تھے سوائے گرگٹ کے، یہ اور پھونک رہا تھا ، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے ۔ [سنن ابن ماجه:3231،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
5462

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” ان کا مکر ہم نے ان پر الٹ دیا “۔ کافروں نے اللہ کے نبی علیہ السلام کو نیچا کرنا چاہا اللہ نے انہیں نیچا دکھایا۔

. عطیہ عوفی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں جلائے جانے کا تماشا دیکھنے کے لیے ان کافروں کا بادشاہ بھی آیا تھا، ادھر خلیل اللہ علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جاتا ہے ادھر آگ میں سے ایک چنگاری اڑتی ہے اور اس کافر بادشاہ کے انگوٹھے پر آ پڑتی ہے اور وہیں کھڑے کھڑے سب کے سامنے اس طرح اسے جلا دیتی ہے جیسے روئی جل جائے۔‏‏‏‏
5463



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.